جاڑؔ نے کے لئے جو ایک ادنیٰ کام ہے کیوں پرمیشرکے وجود کی ضرورت ٹھہری سو آپ سوچیں کہ کیا اس سوال کے جواب میں یہی لکھنا مناسب تھا جو آپ نے لکھا میں متعجب ہوں کہ آپ اس سوال کے جواب پر کس غرض اور کس خیال سے یہ بحث لے بیٹھے کہ ایک دانہ گندم یا باجرہ بھی کوئی دوسرا شخص بغیر پرمیشر کے نہیں بنا سکتا۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی دوسرا شخص گندم یا باجرہ کے دانہ بنانے سے عاجز ہے تو کیا ایسا شخص ان عجائب حکمت و صنعت کے کام کرنے پر قادر ہوسکتا ہے جو روحوں میں پائے جاتے ہیں پھر جس حالت میں کوئی شخص ان عجائب حکمت و غرائب صنعت کے کاموں پر جو روحوں یا اجسام میں پائے جاتے ہیں مقابلہ کرنے کی قدرت و طاقت نہیں رکھتا تو پھر اگر آپ تالیف اجسام یعنی خدائے تعالیٰ کے جوڑنے جاڑنے کو بوجہ بے نظیر ہونے اس فعل کے صانع کے وجود کی دلیل ٹھہراتے ہیں اور اسی دلیل سے یعنی تالیف اجسام سے ایک مؤلف کی ضرورت سمجھتے ہیں تو پھر روحوں میں بھی بوجہ اولیٰ آپ کو ماننا پڑے گا کہ اس جگہ بھی ایک موجد کی ضرورت ہے کیونکہ جب دو چیزیں ایک ہی صورت اور شکل کی ہوں تو جو احکام ایک پر صادر ہوں وہی احکام دوسرے پر بھی صادر کرنے پڑیں گے ورنہ ترجیح بلا مرجح لازم آئے گی اور جب ایک جگہ آپ اس بات کو روا رکھ لیں گے کہ اگرچہ یہ کام بے نظیر اور انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے مگر پھربھی خودبخود ہے اور پرمیشر کے بنانے کی اس میں ضرورت نہیں پڑی تو پھر اسی صورت اور شکل کے کام کی نسبت دوسری جگہ آپ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ اس میں پرمیشر کی خواہ نخواہ ضرورت پڑگئی ہے۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اگر پرمیشر کے وجود کی ضرورت ہے تو دونوں طور کے کاموں میں ہوگی نہیں تو ان میں سے کسی کام کے لئے بھی اس کی ضرورت ماننی نہیں چاہئے یہ کیسا مکابرہ ہے اور کس قسم کی منطق ہے کہ آپ تالیف اجسام میں تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ سے جوڑنا جاڑنا ظہور میں آیا ہے وہ بے نظیر ہے اور انسان اس کی مثل بنانے پر قادر نہیں اس لئے اس تالیف سے ایک مؤلف