لیتے لیکن اب تم مجھے دیکھ نہیں سکتے۔
پھر ماسوائے اس کے اگر یہ بات صحیح ہے کہؔ آیت3 ۱ کے یہی معنی ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمانِ دوم کی طرف اُٹھائے گئے تو پھر پیش کرنا چاہئے کہ اصل متنازعہ فیہ امر کا فیصلہ کس آیت میں بتلایا گیا ہے۔ یہودی جو اب تک زندہ اور موجود ہیں وہ تو حضرت مسیح کے رفع کے انہیں معنوں سے منکر ہیں کہ وہ نعوذ باللہ مومن اور صادق نہ تھے اور ان کی روح کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوا اور شک ہو تو یہودیوں کے علماء سے جا کر پوچھ لو کہ وہ صلیبی موت سے یہ نتیجہ نہیں نکالتے کہ اِس موت سے روح معہ جسم آسمان پر نہیں جاتی۔ بلکہ وہ بالاتفاق یہ کہتے ہیں کہ جو شخص صلیب کے ذریعہ سے مارا جائے وہ ملعون ہے۔ اس کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں حضرت عیسیٰؑ کی صلیبی موت سے انکار کیا اور فرمایا 3۲ اور3کے ساتھ آیت میں 3کا لفظ بڑھا دیا۔ تا اس بات پر دلالت کرے کہ صرف صلیب پر چڑھایا جانا موجب *** نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ صلیب پر چڑھایا بھی جائے اور بہ نیت قتل اس کی ٹانگیں بھی توڑی جائیں اور اس کو مارا بھی جائے تب وہ موت ملعون کی موت کہلائے گی مگر خدا نے حضرت عیسیٰؑ کو اس موت سے بچا لیا۔ وہ صلیب پر چڑھائے گئے مگر صلیب کے ذریعہ سے ان کی موت نہیں ہوئی۔ ہاں یہود کے دلوں میں یہ شُبہ ڈال دیا کہ گویا وہ صلیب پر مرؔ گئے ہیں اور یہی دھوکا نصاریٰ کو بھی لگ گیا۔ ہاں انہوں نے خیال کیا کہ وہ مرنے کے بعد زندہ ہو گئے ہیں لیکن اصل بات صرف اتنی تھی کہ اس صلیب کے صدمہ سے بے ہوش ہو گئے تھے اور یہی معنی 3 کے ہیں۔ اِس واقعہ پر مرہم عیسیٰ کا نسخہ ایک عجیب شہادت ہے جو صدہاسال سے عبرانیوں اور رومیوں اور یونانیوں اور اہل اسلام کی قرابادینوں میں