اطلاع
عام اطلاع کے لئے اردو میں لکھا جاتا ہے کہ خداتعالیٰ نے ستر دن کے اندر ۲۰ فروری ۱۹۰۱ء کو اس رسالہ کو اپنے فضل وکرم سے پورا کر دیا۔ سچ یہی ہے کہ یہ سب کچھ اس کے فضل سے ہوا۔ ان دنوں میں یہ عاجز کئی قسم کے امراض اور اعراض میں بھی مبتلا ہوا جس سے اندیشہ تھا کہ یہ کام پورا نہ ہو سکے کیونکہ بباعث ہر روز کے ضعف اور حملہ مرض کے طبیعت اس لائق نہیں رہی تھی کہ قلم اٹھا سکے۔ اور اگر صحت بھی رہتی تو خود مجھ میں کیا استعداد تھی۔ من آنم کہ من دانم۔ لیکن اخیر پر ان مراض بدنی کا بھید مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ تا یہ جماعت بھی جو اس جگہ میرے دوستوں میں سے موجود ہیں یہ خیال نہ کریں کہ میری اپنی دماغی طاقتوں کا یہ نتیجہ ہے۔ سو اس نے ان عوارض اور موانع سے ثابت کر دیا کہ میرے دل اور دماغ کا یہ کام نہیں۔ اس خیال میں میرے مخالف سراسر سچ پر ہیں کہ یہ اس شخص کا کام نہیں کوئی اور پوشیدہ طور پر اس کو مدد دیتا ہے۔ سو میں گواہی دیتا ہوں کہ حقیقت میں ایک اور ہے جو مجھے مدد دیتا ہے لیکن وہ انسان نہیں بلکہ وہی قادر توانا ہے جس کے آستانہ پر ہمارا سر ہے۔ اگر کوئی اور بھی ایسے کاموں میں مدد دے سکتا ہے جن میں معجزانہ طاقت ہے تو پھر اس صورت میں ناظرین کو توقع کرنی چاہئے کہ اس کتاب کے ساتھ اور اس کے مانند انہی ستر دنوں میں صدہا اور تفسیریں سورۃ فاتحہ کی میری شرط کے موافق شائع ہو نے والی ہیں یا شائع ہو چکی ہیں کیونکہ اسی پر مدار فیصلہ رکھا گیا ہے۔ بالخصوص سید مہر علی شاہ صاحب پر تو یقین ہے کہ انہوں نے اس وقت تفسیر لکھنے کے لئے ضرور کچھ کوشش کی ہو گی ورنہ اب وہ ان لوگوں کو کیونکر منہ دکھا سکتے ہیں جن کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ تفسیر لکھنے کے لئے لاہور آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگور وہ ستر دن میں لکھ نہ سکے تو سات گھنٹہ میں کیا لکھ سکتے۔ غرض منصفین کے لئے خدا کی تائید دیکھنے کے لئے یہ ایک عظیم الشان نشان ہے کیونکہ ستر دن کی میعاد ٹھہرا کر صدہا مولوی صاحبان بالمقابل بلائے گئے۔ اب ن کا کیا جواب ہے کہ کیوں وہ ایسی تفسیر شائع نہ کر سکے۔ یہی تو معجزہ ہے اور معجزہ کیا ہوتا ہے؟
اے دوستو جو پڑھتے ہو اُمّ الکتاب کو
اب دیکھو میری آنکھوں سے اس آفتاب کو
سوچو دعاء فاتحہ کو پڑھ کے بار بار
کرتی ہے یہ تمام حقیقت کو آشکار
دیکھو خدا نے تم کو بتائی دعا یہی
اس کے حبیب نے بھی پڑھائی دعا یہی
پڑھتے ہو پنج وقت اسی کو نماز میں
جاتے ہو اس کی رہ سے در بے نیاز میں
اس کی قسم کہ جس نے یہ سورت اُتاری ہے
اس پاک دل پہ جس کی وہ صورت پیاری ہے
یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے
یہ میرے صدق دعویٰ پہ مہر الٰہ ہے
میرے مسیح ہونے پہ یہ اِک دلیل ہے
میرے لئے یہ شاہد رب جلیل ہے
پھر میرے بعد اوروں کی ہے انتظار کیا؟
توبہ کرو کہ جینے کا ہے اعتبار کیا
الراقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیاں۔ ۲۰ فروری ۱۹۰۱ء