پاک نبی کے نافرمان مت بنو مسیح موعود جو آنے والا تھاآچکا اور اُس ؔ نے حکم بھی دیا کہ آئندہ مذہبی جنگوں سے جو تلوار اور کُشت و خون کے ساتھ ہوتی ہیں باز آجاؤ تو اب بھی خونریزی سے باز نہ آنا اور ایسے وعظوں سے مُنہ بند نہ کرنا طریق اسلام نہیں ہے جس نے مجھے قبول کیا ہے وہ نہ صرف ان وعظوں سے مُنہ بند کرے گا بلکہ اس طریق کو نہایت بُرا اور موجب غضبِ الہٰی جانے گا۔ اس جگہ ہمیں یہ بھی افسوس سے لکھنا پڑا کہ جیسا کہ ایک طرف جاہل مولویوں نے اصل حقیقت جہاد کی مخفی رکھ کر لوٹ مار اور قتل انسان کے منصوبے عوام کو سکھائے اور اس کا نام جہاد رکھا ہے اِسی طرح دوسری طرف پادری صاحبوں نے بھی یہی کارروائی کی اور ہزاروں رسالے اور اشتہار اردو اور پشتو وغیرہ زبانوں میں چھپوا کر ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں اس مضمون کے شائع کئے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ سے پھیلا ہے اور تلوار چلانے کا نام اسلام ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے جہاد کی دوگواہیاں پاکر یعنی ایک مولویوں کی گواہی اور دوسری پادریوں کی شہادت اپنے وحشیانہ جوش میں ترقی کی۔ میرے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری محسن گورنمنٹ ان پادری صاحبوں کو اس خطرناک افتراسے روک دے جس کا نتیجہ ملک میں بے امنی اور بغاوت ہے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ پادریوں کے اِن بے جا افتراؤں سے اہل اسلام دین اسلام کو چھوڑ دیں گے ہاں ان وعظوں کا ہمیشہ یہی نتیجہ ہوگا کہ عوام کے لئے مسئلہ جہاد کی ایک یاددہانی ہوتی رہے گی اور وہ سوئے ہوئے جاگ اٹھیں گے۔ غرض اب جب مسیح موعود آگیا تو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاد سے باز آوے۔ اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو شائد اس غلط فہمی کا کسی قدر عذر بھی ہوتا مگر اب تو میں آگیا اور تم نے وعدہ کا دن دیکھ لیا۔ اس لئے اب مذہبی طور پر تلوار اٹھانے والوں کا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہیں۔ جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اور حدیثوں کو پڑھتا او رقرآن کو دیکھتا ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریق جہاد جس پر اس زمانہ کے اکثر وحشی