کارؔ بند ہو رہے ہیں۔ یہ اسلامی جہاد نہیں ہے بلکہ یہ نفس امارہ کے جوشوں سے یا بہشت کی طمع خام سے ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئے ہیں۔ مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کرکے ہرگز تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھایا اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اٹھاؤ اورصبر کرو ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا۔ وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا۔ اُن کے بچے اُن کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے وہ آگ اور پانی کے ذریعہ سے عذاب دیئے گئے مگر وہ شرّ کے مقابلہ سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیرخوار بچے ہیں۔ کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تما م نبیوں کی اُمتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سُن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنا لیا جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اِس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردی اور مردانگی کے پھر خونخوار دشمن کی ایذا اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا؟ ہمارے سیدو مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانہ میں بھی آپ کے جان نثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے اور بسااوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبردآزما کوشکست دے دی۔ ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اس کا باعث کوئی بُزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سُن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور بکریوں اور بھیڑوں کی ؔ طرح ذبح ہونے کو طیار ہو گئے تھے۔ بیشک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی اُمت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاق فاضلہ نہیں پاتے