شائع ہو جانی چاہئے۔* تب اہل علم لوگ خود مقابلہ اور موازنہ کر لیں گے۔ اور اگر اہل علم میں سے تین۳ کس جوادیب اور اہل زبان ہوں اور فریقین سے کچھ تعلق نہ رکھتے ہوں قسم کھا کر کہہ دیں کہ پیر صاحب کی کتاب کیا بلاغت اور فصاحت کے رُو سے اور کیا معارف قرآنی کے رُو سے فائق ہے تو مَیں عہد صحیح شرعی کرتا ہوں کہ پانسو روپیہ نقد بلا توقف پیر صاحب کی نذر کروں گا اور اس صورت میں اس کوفت کا بھی تدارک ہو جائے گا جو پیر صاحب سے تعلق رکھنے والے ہر روز بیان کرکے روتے ہیں جو ناحق پیر صاحب کو لاہور آنے کی تکلیف دی گئی۔ اور یہ تجویز پیر صاحب کے لئے بھی سراسر بہتر ہے کیونکہ پیر صاحب کو شائد معلوم ہو یا نہ ہو کہ عقلمند لوگ ہرگز اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ پیر صاحب کو علم قرآن میں کچھ دخل ہے۔ یا وہ عربی فصیح بلیغ کی ایک سطر بھی لکھ سکتے ہیں بلکہ ہمیں ان کے خاص دوستوں سے یہ روایت پہنچی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بہت خیر ہوئی کہ پیر صاحب کو بالمقابل تفسیر عربی لکھنے کا اتفاؔ ق پیش نہیں آیا۔ ورنہ اُن کے تمام دوست ان کے طفیل سے شاھت الوجوہ سے ضرور حصّہ لیتے۔ سو اس میں کچھ شک نہیں کہ اُن کے بعض دوست جن کے دلوں میں یہ خیالات ہیں جب پیر صاحب کی عربی تفسیر مزیّن بہ بلاغت وفصاحت دیکھ لیں گے تو ان کے پوشیدہ شبہات جو پیر صاحب کی نسبت رکھتے ہیں جاتے رہیں گے اور یہ امر موجب رجوع خلائق ہوگا۔ جو اس زمانہ کے ایسے پیر صاحبوں کا عین مدعا ہوا کرتا ہے۔ اور اگر پیر صاحب مغلوب ہوئے تو تسلّی رکھیں کہ ہم اُن سے
یعنی ۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء سے ۲۵؍فروری ۱۹۰۱ء تک میعاد تفسیر لکھنے کی ہے اور چھپائی کے دن بھی اسی میں ہیں۔ ستر۷۰ دن میں دونوں فریق کی کتابیں شائع ہو جانی چاہئیں۔ منہ