اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں پھر اگر مَیں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دُعائیں قبول ہو جائیں گی اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گِریں کہ ناک گِھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گر یہ وزاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دما ؔ غ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سُنی نہیں جائیں گی کیونکہ مَیں خدا سے آیا ہوں۔ جو شخص میرے پر بد دُعا کرے گا وہ بد دُعا اُسی پر پڑے گی جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اُس پر *** ہو وہ *** اس کے دل پر پڑتی ہے مگرا س کو خبر نہیں۔ اور جو شخص میرے ساتھ اپنی کشتی قرار دے کر یہ دُعائیں کرتا ہے کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے اس کا نتیجہ وہی ہے جو مولوی غلام دستگیر قصوری نے دیکھ لیا کیونکہ اُس نے عام طور پر شائع کر دیا تھا کہ مرزا غلام احمد اگر جھوٹا ہے اور ضرور جھوٹا ہے تو وہ مجھ سے پہلے مرے گا اور اگر مَیں جھوٹا ہوں تو مَیں پہلے مر جاؤں گا۔ اور یہی دُعا بھی کی تو پھر آپ ہی چند روز کے بعد مر گیا۔ اگر وہ کتاب چھپ کر شائع نہ ہو جاتی تو اس واقعہ پر کون اعتبار کر سکتا مگر اب تو وہ اپنی موت سے میری سچائی کی گواہی دے گیا۔ پس ہر ایک شخص جو ایسا مقابلہ کرے گا اور ایسے طور کی دُعا کرے گا تو وہ ضرور غلام دستگیر کی طرح میری سچائی کا گواہ بن جائے گا۔ بھلا سوچنے کا مقام ہے کہ اگر لیکھرام کے مارے جانے کی نسبت بعض شریروں ظالم طبع نے میری جماعت کو اُس کا قاتل قرار دیا ہے حالانکہ وہ ایک بڑا نشان تھا جو ظہور میں آیا اور ایک میری پیشگوئی تھی جو پوری ہوئی تو یہ تو بتلا ویں کہ مولوی غلام دستگیر کو میری جماعت میں سے کس نے مارا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ وہ بغیر میری درخواست کے آپ ہی ایسی دعا کرکے دنیا سے کوچ کر گیا کوئی زمین پر مر نہیں سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے۔ میری رُوح میں وہی