اُس کے پنجہ کی پناہ میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرکوئی قسم کھا کر یہ کہے کہ فلاں مامور من اللہ جھوٹا ہے اور خدا پر افترا کرتا ہے اور دجّال ہے اور بے ایمان ہے حالانکہ دراصل وہ شخص خدا کی طرف سے اور صادق ہو اور یہ شخص جو اس کا مکذّب ہے مدارفیصلہ یہ ٹھہرائے کہ جناب الٰہی میں دعا کرے کہ اگر یہ صادق ہے تو مَیں پہلے مروں اور اگر کاذب ہے تو میری زندگی میں یہ شخص مر جائے تو خدا تعالیٰ ضرور اس شخص کو ہلاک کرتا ہے جو اس قسم کا فیصلہ چاہتا ہے۔ ہم لکھ چکے ہیں کہ مقام بدر میں ابو جہل نے بھی یہی دُعا کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کرکہا تھا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے خدا اِسی میدانِ جنگ میں اُس کو قتل کرے۔ سو اس دُعا کے بعد وہ آپ ہی مارا گیا۔ یہی دُعا مولوی اسماعیل علی گڑھ والے نے اور مولوی غلام دستگیر قصوری نے میری مقابل پر کی تھی جس کے ہزاروں انسان گواہ ہیں۔ پھر بعد اس کے وہ دونوں مولوی صاحبان فوت ہو گئے۔ نذیر حسین دہلوی جو محدّث کہلاتا ہے مَیں نے بہت زور دیا تھا* کہ وہ اسیؔ دُعا کے ساتھ فیصلہ کرے لیکن وہ ڈر گیا اور بھاگ گیا۔ اس روز دہلی کی شاہی مسجد میں سات ہزار کے قریب لوگ جمع ہوں گے جبکہ اس نے انکار کیا۔ اسی وجہ سے ابتک زندہ رہا۔ اب ہم اس رسالہ کو ختم کرتے ہیں اور حافظ محمد یوسف صاحب اور ان کے ہم جنسوں سے جواب کے منتظر ہیں
اس بات کو قریباً نو۹ برس کا عرصہ گذر گیا کہ جب میں دہلی گیا تھا اور میاں نذیر حسین غیر مقلد کو دعوت دین اسلام کی گئی تھی۔ تب ان کے ہر یک پہلو سے گریز دیکھ کر اور ان کی بد زبانی اورد شنام دہی کو مشاہدہ کرکے آخری فیصلہ یہی ٹھہرایا گیا تھا کہ وہ اپنے اعتقاد کے حق ہونے کی قسم کھالے پھر اگر قسم کے بعد ایک سال تک میری زندگی میں فوت نہ ہوا تو مَیں تمام کتابیں اپنی جلا دوں گا اور اس کو نعوذ باللہ حق پر سمجھ لوں گالیکن وہ بھاگ گیا اسی بھاگنے کی برکت سے اب تک اس کو عمر دی گئی۔منہ