و رسلی۔ وانی مع الافواج اٰتیک بغتۃ۔ وانی اموج موج البحر۔ ان فضل اللّٰہ لاٰت۔ ولیس لاحد ان یرد ما اتی۔ قل ای وربی انہ لحق لا یَتَبَدّلُ ولا یخفی۔ وینزل ما تعجب منہ و۔حی من ربّ السّمٰوات العلٰی۔ لا الٰہ الّا ھو یعلم کل شئ و یریٰ۔ ان اللّٰہ مع الذین اتقوا والذین ھم یحسنون الحُسْنٰی۔ تُفَتّحُ لھم ابواب السماء ولھم بشریٰ فی الحیٰوۃ الدنیا۔ انت تربی فی حجر النبی* وانت تسکن قنن الجبال۔ وانی معک فی کل حال۔ ترجمہ:۔ ہم نے احمد کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ تب لوگوں نے کہا کہ یہ کذاب ہے ۔اور انہوں نے اِس پر گواہیاں دیں اور سیلاب کی طرح اس پر گرے۔ اس نے کہا کہ میرا دوست قریب ہے مگر پوشیدہ۔ تجھے میری مدد آئے گی مَیں رحمان ہوں۔ تو قابلیت رکھتا ہے اس لئے تو ایک بزرگ بارش کو پائے گا۔ میں ہر ایک قوم میں سے گروہ کے گروہ تیری طرف بھیجوں گا۔ مَیں نے تیرے مکان کو روشن کیا۔ یہ اس خدا کا کلام ہے جو عزیز اور رحیم ہے اور اگر کوئی کہے کہ کیونکر ہم جانیں کہ یہ خدا کا کلام ہے تو ان کے لئے یہ علامت ہے کہ یہ کلام نشانوں کے ساتھ اُترا ہے اور خدا ہر گز کافروں کو یہ موقع نہیں دے گاکہ مومنوں پر کوئی واقعی اعتراض کر سکیں۔ تو علم کا شہر ہے طیّب اور خدا کا مقبول۔
* بعض نادان کہتے ہیں کہ عربی میں کیوں الہام ہوتا ہے اس کا یہی جواب ہے کہ شاخ اپنی جڑ سے علیحدہ نہیں ہو سکتی جس حالت میں یہ عاجز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنار عاطفت میں پرورش پاتا ہے جیسا کہ براہین احمدیہ کا یہ الہام بھی اس پر گواہ ہے کہ تبارک الذی۱ من علّم وتعلّم یعنی بہت برکت والا وہ انسان ہے جس نے اس کو فیض روحانی سے مستفیض کیا یعنی سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرا بہت برکت والا یہ انسان ہے جس نے اس سے تعلیم پائی تو پھر جب معلّم اپنی زبان عربی رکھتا ہے ایسا ہی تعلیم پانے والے کا الہام بھی عربی میں چاہئے تا مناسبت ضائع نہ ہو۔ منہ
۱ لفظ ’’الذی‘‘ سہو کاتب ہے۔ براہین احمدیہ میں یہ نہیں ہے۔ (شمس)