ومنہم قوم أکملوا أمر الضلالۃ، وارتدّوا من الإسلام وعادَوہ من الجہالۃ، وکتبوا کتبًا فی ردّہ، وشتموا رسول اللّہ وصالوا علی عرضہ، وتلک أفواجٌ فی ہذا المُلک بعدما کانوا یُسلِمون. فتمّ ما أُشیرَ إلیہ فی الفاتحۃ، فإنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون۔ وأوّلُ نبأ ظہَر من أنباءِ أُمّ الکتاب ہو تنصُّر المسلمین وشتمہم وصَولہم
و بعضے ازوشاں امر گمراہی را بر کمال رسانیدند و از اسلام برگشتند
و از نادانی اسلام را دشمن داشتند و در رد اسلام کتابہا نوشتند
و رسول خدا را بد گفتند و بر آبروئے وے بتاختند
و ازیں قسم مردم دریں ملک فوج فوج ہستند و ایشاں قبل ازیں مسلمان بودند۔
پس آنچہ در سورہ فاتحہ اشارت بآں رفتہ بود بظہور و وقوع آمد فانا للّٰہ و انّا الیہ راجعون
و اول خبرے کہ از اخبار ام الکتاب بظہور آمد
آں نصرانی شدن مسلماناں و دشنام دادن اوشاں و
اور بعض ان میں سے پکے گمراہ ہو گئے
اور جہالت سے اسلام کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں اور اسلام کے رد میں کتابیں لکھیں
اور خدا کے رسول کو برا کہا اور اس کی عزت پر حملہ کیا اور اس قسم کے لوگ اس ملک میں کثرت سے ہیں اور وہ اس سے پہلے مسلمان تھے۔
پس جس بات کا سورۃ فاتحہ میں اشارہ تھا وہ ظاہر ہو گئی۔ انا للّٰہ و انّا الیہ راجعون
اور پہلی خبر جو ام الکتاب کی خبروں سے ظاہر ہوئی
وہ مسلمانوں کا نصرانی ہو جانا اور ان کا گالیاں دینا اور