الثبور والویل، وتُدفع إلیہم زُمع الناس کغثاء السیل۔ وما أقول أنہم یُنصرون من السلطنۃ أو یُواسون من أیادی الدولۃ، بل الدولۃ البرطانیۃ سوّت رعایاہا فی الحرّیۃ، وما غادرت دقیقۃ من دقائق النصفۃ۔ وکل فرقۃ نالت غایۃ رجاۂا فی أمور الملّۃ، وما ضُیّق علی أحد کأیّام الخالصۃ۔ واسترحنا مذ علقنا بأہدابہا، فندعو لہا ولأرکانہا ولأربابہا۔ وأمّا القسوس فلا یأتیہم من ہذہ الدولۃ شیء یُعتدّ بہ من مال الإمدادات، بل اجتمع شملہم بما أنہم قبضوا من قومہم کثیرا من الصِّلاۃ ونصُّوا الإحالات، وما برحوا کھڑی ہے اور کمینہ طبع آدمی خس وخا شاک کی طرح ان کی طرف کھینچے جا رہے ہیں ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سلطنت برطانیہ کی طرف سے ان کو مدد ملتی ہے یا یہ سلطنت مال کے ساتھ ان کی غم خواری کرتی ہے بلکہ دولت برطانیہ نے اپنی تمام رعیت کو آزادی میں برابر رکھا ہے اور کوئی دقیقہ انصاف کا اٹھا نہیں رکھا اور ہر ایک فرقہ امور مذہب میں اپنی انتہائی مراد کو پہنچ گیا ہے اور سکھوں کے ایام کی طرح کوئی تنگی نہیں اور ہم اس وقت سے کہ اس کا دامن پکڑا آرام میں ہیں اور اس کے لئے اور اس کے ارکان کے لئے دعا کرتے ہیں ۔ مگر پادری لوگ اس دولت سے کوئی خاص امداد نہیں پاتے اور ان کی مالی جمعیت کا سبب یہ ہے کہ قوم کے چندہ میں سے بہت سا روپیہ ان کے پاس جمع ہے اور ہر ایک وعدہ ایفا ہو کر نقدی ان کے پاس اکٹھی ہو تی و بائی جان ستان است و سفیہان پست نثراد چوں خس وخاشاک بسوئے اُنہا کشان میروند۔ نمی گویم سلطنۂ برطانیہ پشت و پناہ انہا بودہ یا از عطائے مال و نوال چارۂ کار انہا رامی نماید۔حاشا و کلّا بل دولہ برطانیہ جمیع رعایا را از جہت حریت و آزادی بادیدۂ مساوات می بیندو در ایں باب کمال نصفت و داد گری را مرعی داشتہ است چنانچہ ہمۂ ملل در زیر ظل رافت وے بر منتہائے آرزوئے خویش رسیدہ اند و چون عہد نحوست مہد خالصہ سکھ ہیچ نفسے عرضۂ بلاء مزاحمت نیست۔ و از وقتے کہ دست بد امانش زدہ ایم بر احت بسرمی بریم و جہت وے و ارکان وے دعا می کنیم ۔ ام کشیشاں مخصوصاًاعانۂ از دولہ برطانیہ بایشان نرسد۔ وسبب فراہم آمدن این مبالغے گزاف آنکہ جمیع ملّت تو زیعات بدیشان مید ہند و ہر کسے ہر چہ وعدہ بانہا کند ایفائی آنرا بر خود لازم داند۔