یاؔ أرضُ اسمعی ما أقول ویا سماء اشہدی ہذا مکتوب إلی خواص الناس ونخب الأقوام، من عبد اللّٰہ أحمد* الذی نُصِّلَ لہ أسہم الملام، وأرجو أن لا یُعجَلَ بذمّ، ولا یُنبَذ عودی قبل عجم، بل یُسمع قولی بالوقار والتُؤدۃ، ثم یُتبع ما یُلقی اللّٰہ فی الأفئدۃ۔ وأدعو اللّٰہ أن یُلہم القلوب ما ہو أصوب وأولٰی، وہو نعم الہادی ونعم المولٰی اےؔ زمین سن جو میں کہتا ہوں اور اے آسمان گواہ رہ یہ ایک خط ہے جو خواص لوگوں اور قوموں کے بر گزیدوں کی طرف لکھا گیا ہے اور یہ خدا کے بندے احمد کی طرف سے ہے جس کے لئے ملامت کے تیروں پر پیکان رکھے گئے۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ بُرا کہنے کے لئے جلدی نہ کی جائے۔ اور میری لکڑی آزمانے سے پہلے پھینک نہ دی جائے بلکہ میری بات کو آہستگی سے سنا جائے پھر اس بات کی پیروی کی جائے کہ جو خدا تعالیٰ دلوں میں ڈالے۔ اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ وہ امر دلوں میں ڈالے جو نہایت سیدھا اور بہتر ہے اور وہی اچھا ہادی اور اچھا آقا ہے ۔ زمین ؔ بشنو آنچہ می گویم وآسمان گواہ باش این نامہ ایست کہ بسوئ مردم چیدہ وکلانان ملتہا نوشتہ شدہ از قبل بندۂ خدا احمدآنکہ از برائے اوبر تیر ہا پیکان نکوہش در پیوستہ اند۔ امید دارم کہ در نکو ہیدن شتاب کاری رواند اشتہ و پیش از آزمودن سرگی و ناسرگی نقد مرا از دست انداختہ نشود۔ بلکہ مناسب است گفتار مرا بآہستگی و آرامی گوش کردہ باز پیروی آنچہ خدا در دل بریزد نمودہ شود۔ از خدا میخواہم دلہارا رہنمونی بفرماید بآنچہ راست و بہتر است۔ * انا شہیر باسم میرزا غلام احمد بن میرزا غلام مرتضیٰ القادیانی و القادیان قریۃ مشہورۃ من ملک الہند من فنجاب قریب من لاہور فی ضلع گورداسپور ھٰذا علامۃ تکفی لمن ارادان یکتب الیّ مکتوبًا۔ منہ