ایکؔ کارڈ بھیجا اور اخباروں میں بھی اس کتاب کی نسبت بہت سی شکایتیں میں نے پڑھی ہیں- جن سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت اس شخص نے بہت سی بدتہذیبی اور شوخی اور بدزبانی سے اپنی کتاب میں جابجا کام لیا ہے۔
غرض میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں میں اس کتاب سے ازحد اشتعال پیدا ہوا ہے اور اس اشتعال کی حالت میں بعض نے گورنمنٹ عالیہ کے حضور میں میموریل بھیجے اور بعض کتاب کے ردّ کی طرف متوجہ ہوئے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ اس افترا کا جیسا کہ تدارک چاہئیے تھا وہ اب تک نہیں ہوا۔ ایسے امور میں میموریل بھیجنا تو محض ایک ایسا امر ہے کہ گویا اپنے شکست خوردہ ہونے کا اقرار کرنا اور اپنے ضعف اور کمزوری کا لوگوں میں مشہور کرنا ہے۔ اور نیز یہ امر بھی ہرگز پسند کے لائق نہیں کہ ہر ایک شخص ردّ لکھنے کے لئے طیّار ہو جائے اوراس سے ہم یہ سمجھ لیں کہ جو کچھ ہم نے جواب دینا تھا وہ دے چکے۔ اس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوتا اور بسا اوقات ایک ایسا ملا گوشہ نشین سادہ لوح ردّ لکھتا ہے کہ نہ اس کو معارف حقائق قرآنی سے پورا حصہ ہوتا ہے اور نہ احادیث کے معانی لطیفہ سے کچھ اطلاع اور نہ درایت صحیحہ اور نہ علم تاریخ نہ عقل سلیم اورنہ اس طرز اور طریق سے کچھ خبر رکھتاہے جس طرز سے حالت موجودہ زمانہ پر اثر پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا ایسے ردّ کے شائع ہونے سے اور بھی استخفاف ہوتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اکثر ایسے لوگ جواس شغل مباحثات مذہبیّہ میں اپنے تئیں ڈالتے ہیں علوم دینیہ اور نکات حکمیہ سے بہت ہی کم حصہ رکھتے ہیں اور تالیفات کے وقت نیّت میں بھی کچھ ملونی ہوتی ہے۔ اس لئے ان کے مؤلّفات میں قبولیت اور برکت کا رنگ نہیں آتا۔ یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ اس زمانہ میں اگر کوئی شخص مناظرات مذ ہبیّہ کے میدان میں قدم رکھے یا مخالفوں کے ردّ میں تالیفات کرنا چاہے تو شرائط مندرجہ ذیل اس میں ضرور ہونی چاہئیں۔
اوّل۔ علم زبان عربی میں ایسا راسخ ہو کہ اگر مخالف کے ساتھ کسی لفظی بحث کا اتفاق پڑ جائے تو اپنی لغت دانی کی قوت سے اُس کو شرمندہ اور قائل کر سکے۔ اور اگر عربی میں کسی تالیف کا