سامنے اور نیز اس عدالت میں دیا تھا وہ صحیح ہے۔ سو صاحب موصوف نے مزید تفتیش کے لئے جناب کپتان لیمارچنڈ ڈسٹرکٹ سوپر انٹنڈنٹ پولس کو حکم دیا کہ بطور خودؔ عبدالحمید سے اصلیت مقدمہ دریافت کریں۔ پھر بعد اس کے جس احتیاط اور نیک نیتی اور فراست اور غور اور طریق عدل اور انصاف سے جناب کپتان لیمارچند صاحب نے اس مقدمہ کی تفتیش میں کام لیا وہ بھی بجز خاص منصف مزاج اور نیک نیت اور بیدار مغز حکام کے ہر ایک کا کام نہیں۔ سو ان حکّام کا نیک مزاج اور نیک نیت اور انصاف پسند ہونا اور قدیم سے عدالت اور انصاف پسندی کا عادی ہونا اور پوری تحقیق اور تفتیش سے کام لینا یہی وہ اسباب تھے جو خدا نے میری بریّت کے لئے پیدا کئے اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر اور صاحب ڈسٹرکٹ سپرانٹنڈنٹ پولس کی نیک نیتی اور انصاف پسندی اور بھی زیادہ کھلتی ہے جبکہ اس بات پر غور کی جائے کہ یہ مقدمہ درحقیقت ایک عیسائی جماعت کی طرف سے تھا اور گو بظاہر ان میں سے ایک ہی شخص پیروکار تھا۔ مگر مشورہ اور امداد میں کئی دیسی کرسچنوں کو دخل تھا۔ درحقیقت پبلک کے دلوں میں اس عدالت اور انصاف نے صاحبان موصوف کی بہت ہی خوبی اور عدل قابل تعریف جمادی ہے کہ ایسا مقدمہ جو مذہبی رنگ میں پیش کیا گیا تھا اس میں کچھ بھی اپنی قوم اور مذہب کی رعایت نہیں کی گئی۔ اور نہایت منصفانہ روش سے وہ طریق اختیار کیا گیا جس کو عدالت چاہتی تھی میرے خیال میں یہ ایک ایسا عمدہ نمونہ ہے کہ جو صفحہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے یادگار رہے گا۔
صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی نیک نیتی اور حق پسندی پر ایک اور بھی بڑی بھاری دلیل ہے اور وہ یہ ہے کہ باوجودیکہ انہوں نے عبدالحمید مخبر کا پہلا بیان تمام و کمال قلمبند کر لیا تھا اور اس کی تائید میں پانچ گواہ بھی گذر چکے تھے اور صاحب بہادر ہر طرح پر اختیار رکھتے تھے کہ ان بیانات پر اعتبار کرلیتے مگر محض انصاف اور عدالت کی کشش نے ان کے دل کو پوری تسلی سے روک دیا اور ان کا حق پسند کانشنس بول اٹھا کہ ان بیانات میں سچائی کا نور