نظر اللّٰہ اِلیک معطرًا۔ وَقالُوا أَتجعَلُ فیھا مَن یُّفسِد فیھا قال
اِنّی اعلمُ مَالَا تعلمُون۔ وقالُوا کتابٌ ممتلیءٌ مِن الکُفر وَ
الکذب۔ قل تعالَوا نَدْعُ ابناءَ نا وَابناء کُم وَنساءَ نا وَنساءَ کُم وَ
انفُسَنَا وَانفسَکُم ثمّ نبتھل فنجعل لعنَۃ اللّٰہِ علَی الکَاذبِینَ۔
سَلامٌ علٰی ابراہِیم صَافینَاہ وَنَجّینَاہ مِن الغمِّ۔ تفردْنا بذالکَ
یاداؤدُ عَامِل بالنّاسِ رفقًا واحسانًا۔ تموت وانَا راضٍ مِّنکَ
واللّٰہ یَعصِمکَ مِن النّاس۔ کذّبوا باٰیاتی وکانُوا بھَا یستھزءُ ون۔
فسیَکْفیکہمُ اللّٰہ ویردّھا الیک* اَمْرٌ مِنْ لّدنا اِنّا کُنَّا فاعِلین۔
زوّجناکہَا۔الحقّ مِن ربّک فلَا تکونَنّ مِن الممْترینَ۔ لَا تبدیلَ
خدا نے تیرے پر خوشبو دار نظر کی اور لوگوں نے دلوں میں کہا کہ اے خدا کیا تو ایسے مفسد کو اپنا خلیفہ بنائے گا
خدا نے کہا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تمہیں معلوم نہیں۔ اور لوگوں نے کہا کہ یہ کتاب کفر اور کذب سے بھری
ہوئی ہے ان کو کہہ دے کہ آؤ ہم اور تم اپنے بیٹوں اور عورتوں اور عزیزوں سمیت ایک
جگہ اکٹھے ہوں پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر *** بھیجیں
ابراہیم یعنی اس عاجز پر سلام ہم نے اس سے دلی دوستی کی اور غم سے نجات دی ۔ یہ ہمارا ہی کام تھا جو ہم نے کیا۔
اے داؤد لوگوں سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاملہ کر ۔ تو اس حالت میں مرے گا کہ میں تجھ سے راضی ہوں گا۔
اور خدا تجھ کو لوگوں کے شر سے بچائے گا۔ انہوں نے میرے نشانوں کی تکذیب کی اور ٹھٹھا کیا
سو خدا ان کیلئے تجھے کفایت کرے گا۔ اور اس عورت کو تیری طرف واپس لائے گا۔ یہ امر ہماری طرف سے ہے اور ہم ہی کرنیوالے ہیں
بعد واپسی کے ہم نے نکاح کردیا۔ تیرے رب کی طرف سے سچ ہے پس تو شک کرنے والوں سے مت ہو۔ خدا کے
حاشیہ۔ شیخ محمد حسین بطالوی کا یہ اعتراض ہے کہ الہام کا یہ فقرہ کہ یردھا الیک خلاف محاورہ ہے۔ کیونکہ ردّ کا لفظ اس صورت میں آتا ہے کہ ایک چیز اپنے پاس ہو پھر چلی جائے اور پھر واپس آوے۔ لیکن افسوس کہ اس کو بباعث کمی واقفیت علم زبان کے معلوم نہیں کہ یہ لفظ ادنیٰ تعلق کے ساتھ بھی استعمال ہوجاتا ہے۔ اس کی کلام عرب میں ہزاروں مثالیں ہیں جن کے لکھنے کا اس مقام میں موقعہ نہیں چونکہ اس جگہ قرابت قریبہ تھی اور نزدیک کے رشتہ کے تعلقات نے اپنے پاس کے حکم میں اس کو کیا ہوا تھا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسا لفظ استعمال کیا جو ان چیزوں کے لئے مستعمل ہوتا ہے جو اپنے پاس سے چلی جائیں اور پھر واپس آویں۔ ہاں اس جگہ یہ نہایت لطیف اشارہ تھاکہ خدا نے یردھاکا لفظ استعمال کیا تامعلوم ہو کہ اول اس کا اپنے پاس سے بے تعلق لوگوں میں چلے جانا ضروری ہے پھر واپس آنا تقدیر میں ہے فقط۔ منہ