اور ہیبت دنوں اوروقتوں کے مقرر کرنے کی محتاج نہیں اس بارے میں تو زمانہ نزول عذاب کی ایک حدمقرر کردینا کافی ہے پھر اگرؔ پیشگوئی فی الواقعہ ایک عظیم الشان ہیبت کے ساتھ ظہورپذیر ہوتو وہ خود دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اوریہ سارے خیالات اوریہ تمام نکتہ چینیاں جوپیش از وقت دلوں میں پیدا ہوتی ہیں ایسی معدوم ہوجاتی ہیں کہ منصف مزاج اہل الرائے ایک انفعال کے ساتھ اپنی رایوں سے رجوع کرتے ہیں۔ ماسوا اس کے یہ عاجز بھی تو قانون قدرت کے تحت میں ہے اگرمیری طرف سے بنیاد اس پیشگوئی کی صرف اسی قدر ہے کہ میں نے صرف یاوہ گوئی کے طورپر چند احتمالی بیماریوں کو ذہن میں رکھ کراور اٹکل سے کام لیکریہ پیشگوئی شائع کی ہے توجس شخص کی نسبت یہ پیشگوئی ہے وہ بھی توایسا کرسکتا ہے کہ انہی اٹکلوں کی بنیاد پر میری نسبت کوئی پیشگوئی کردے بلکہ میں راضی ہوں کہ بجائے چھ برس کے جو میں نے اس کے حق میں معیاد مقرر کی ہے وہ میرے لئے دس برس لکھ دے لیکھرام کی عمراس وقت شاید زیادہ سے زیادہ تیس برس کی ہوگی اور وہ ایک جوان قوی ہیکل عمدہ صحت کاآدمی ہے اور اس عاجز کی عمراس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے اور ضعیف اوردائم المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہے پھرباوجود اس کے مقابلہ میں خود معلوم ہوجائے گا کہ کونسی بات انسان کی طرف سے ہے اورکونسی بات خدا تعالیٰ کی طرف سے۔ اور معترض کا یہ کہناکہ ایسی پیشگوئیوں کا اب زمانہ نہیں ہے ایک معمولی فقرہ ہے جواکثر لوگ منہ سے بول دیاکرتے ہیں میری دانست میں تو مضبوط اور کامل صداقتوں کے قبول کرنے کیلئے یہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ شائد اسکی نظیرپہلے زمانوں میں کوئی بھی نہ مل سکے۔ ہاں اس زمانہ سے کوئی فریب اورمکر مخفی نہیں رہ سکتامگر یہ تو را ستبازوں کیلئے اور بھی خوشی کا مقام ہے کیونکہ جو شخص فریب اورسچ میں فرق کرنا جانتاہے وہی سچائی کی دل سے عزت کرتا ہے اوربخوشی اور دوڑکر سچائی کو قبول کرلیتا ہے اور سچائی میں کچھ ایسی کشش ہوتی ہے کہ وہ آپ قبول کرالیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ زمانہ صدہاایسیؔ نئی باتوں کو قبول کرتاجاتا ہے جو لوگوں کے باپ دادوں نے قبول نہیں کی تھیں اگر