یعنیؔ پھر ہم نے اپنی کتاب کا ان لوگوں کو وارث کیا جو ہمارے بندوں میں سے برگزیدہ ہیں اور وہ تین گروہ ہیں ( ۱) ایک اُن میں سے ظالموں کا گروہ جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں یعنی اکراہ اور جبر سے نفس امّارہ کو خدا تعالیٰ کی راہ پر چلاتے ہیں اور نفس سرکش کی مخالفت اختیار کر کے مجاہدات شاقہ میں مشغول ہیں ( ۲) دوسری میانہ حالت آدمیوں کا گروہ جو بعض خدمتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس سرکش سے باکراہ اور جبر لیتے ہیں اور بعض للّہی کاموں کی بجا آوری میں نفس ان کا بخوشی خاطر اس عقدہ کے حل کیلئے عقل سے سوال کرنا بے محل سوال ہے اگر عقل کا اس میں کچھ دخل ہے تو صرف اس قدر کہ عقل سلیم ایسے نفوس کے افعال کی نسبت کہ جو ارادہ اور فہم اور شعور رکھتے ہوں ہرگز یہ تجویز نہیں کرسکتی کہ ان کے وہ افعال عبث اور بے ہودہ اور اغراض صحیحہ ضروریہ سے خالی ہیں۔ پس اگر عقل سلیم اول اس بات کو بخوبی سمجھ لے کہ جو کچھ اجرام اور اجسام سماوی و ارضی اور کائنات الجو میں انواع اقسام کے تغیرات اور تحولات اور ظہورات ہورہے ہیں وہ صرف علل ظاہر یہ تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان تمام حوادث کیلئے اور علل بھی ہیں جو شعور اور ارادہ اور فہم اور تدبیر اور حکمت رکھتے ہیں تو اس سمجھ کے بعد ضرور عقل اس بات کا اقرار کرے گی کہ یہ تمام تغیرات اور حدوثات جو عالم سفلی اور علوی میں ہمیں نظر آتے ہیں عبث اور بے ہودہ اور لغو نہیں بلکہ ان میں مقاصد اور اغراض پوشیدہ ہیں گو ہم ان کو سمجھ سکیں یا ہماری سمجھ اور فہم سے بالاتر ہوں۔ اور اس اقرار کے ضمن میں تساقط شہب کی نسبت بھی یہی اقرار عقل سلیم کو کرنا پڑے گا کہ یہ کام بھی عبث نہیں کیونکہ یہ بات بداہتاً ممتنع ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جو نفوس ارادہ اور فہم اور تدبیر اور حکمت کے پابند ہیں وہ ایک لغو کام پر ابتدا سے اصرار کرتے چلے آئے ہیں۔ سو اگرچہ عقل پورے طور پر اس سر کو دریافت نہ کرسکے مگر وجود ملائک اور ان کی منصبی خدمات کے ماننے کے بعد اس قدر