دئیے تو وہ قواعد مرتب کئے اور وہ تنسیخ و ترمیم کی جو ایک نبی کا کلام تھا۔ جس حکم کو چاہا قائم کر دیا اور اپنی طرف سے عقائد نامے اورعبادت کے طریقے گھڑ لئے اور ایسی آزادی سے مداخلت بیجا کی کہ گویا ان باتوں کے لئے وحی الٰہی ان پر نازل ہو گئی سو الٰہی کتابوں میں اس قدر بیجا دخل دوسرے رنگ میں نبوت کادعویٰ ہے اور خدائی کا دعویٰ اس طرح پر کہ ان کے فلسفہ والوں نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح تمام کام خدائی کے ہمارے قبضہ میں آجائیں۔ جیساکہ ان کے خیالات اس ارادہ پر شائد ہیں کہ وہ دن رات ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ہم بھی مینہ برسائیں اور نطفہ کو کسی آلہ میں ڈال کر اوررحم عورت میں پہنچا کر بچے بھی پید اکر لیں اور ان کاعقیدہ ہے کہ خداکی تقدیر کچھ چیز نہیں ناکامی ہماری بوجہ غلطی تدبیر تقدیر ہو جاتی ہے اور جوکچھ دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ پہلے زمانہ کے لوگوں کو ہر ایک چیز کی طبع اسباب معلوم نہیں تھے اور اپنے تھک جانے کی انتہاء کا نام خدا اور خدا کی تقدیر رکھا تھا اب عللہ طبیعت کا سلسلہ جب بکلی لوگوں کو معلوم ہو جائے گا تو یہ خام خیالات خود بخود ور ہو جائیں گے۔ پس دیکھنا چاہئے کہ یورپ اور امریکہ کے فلاسفروں کے یہ اقوال خدائی کا دعویٰ ہے یا کچھ اور ہے اسی وجہ سے ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح مرد بھی زندہ ہوجائیں اور امریکہ میں ایک گھر وہ عیسائی فلاسفروں کا انہیں باتوں کا تجربہ کر رہا ہے اور مینہ برسانے کا کارخانہ