صاف ثابت ہوتا ہے کہ اسلام وہ فطرتی مذہب ہے جس کے اصولوں میں کوئی تصنع اور تکلف نہیں اور جس کے احکام میں کوئی مستحدث اور بناوٹی امر نہیں اور کوئی ایسی بات نہیں جو زبردستی منوانی پڑے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے جا بجا آپ فرمایا ہے۔ قرآن شریف صحیفۂ فطرت کے تمام علوم اور اس کی صداقتوں کا یاد دلاتا ہے اور اس کے اسرارِ غامضہ کو کھولتا ہے اور کوئی نئے امور برخلاف اس کے پیش نہیں کرتا بلکہ درحقیقت اسی کے معارف دقیقہ ظاہر کرتا ہے برخلاف اس کے عیسائیوں کی تعلیم جس کا انجیل پر حوالہ دیا جاتا ہے ایک نیا خدا پیش کر رہی ہے جس کی خود کشی پر دنیا کی گناہ اور عذاب سے نجات موقوف اور اس کے دکھ اُٹھانے پر خلقت کا آرام موقوف اور اس کے بے عزت اور ذلیل ہونے پر خلقت کی عزت موقوف خیال کی گئی ہے۔ پھر بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک ایسا عجیب خدا ہے کہ ایک حصہ اس کی عمر کا تو منزہ عن الجسم و عن عیوب الجسم میں گزرا ہے اور دوسرا حصہ عمر کا (کسی نامعلوم بدبختی کی وجہ سے) ہمیشہ کے تجسم اور تخیر کی قید میں اسیر ہو گیا اور گوشت پوست استخوان وغیرہ سب کے سب اس کی روح کے لئے لازمی ہوگئے اور اس تجسم کی وجہ سے کہ اب ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا انواع و اقسام کے اس کو دکھ اُٹھانے پڑے آخر دکھوں کے غلبہ سے مر گیا اور پھر زندہ ہوا اور اُسی جسم نے پھر آ کر اس کو پکڑ لیا اور ابدی طور پر اُسے پکڑے رہے گا۔ کبھی مخلصی نہیں ہوگی اب دیکھو کہ کیا کوئی فطرت صحیحہ اس اعتقاد کو قبول کر سکتی ہے؟ کیا کوئی پاک کانشس اس کی شہادت دے سکتا ہے؟ کیا قانون قدرت کا ایک جزو بھی خدا بے عیب و بے نقص وغیرہ متغیر کے لئے یہ حوادث و آفات روا رکھ سکتا ہے کہ اس کو ہمیشہ ہر ایک عالم کے پیدا کرنے اور پھر اس کو نجات دینے کیلئے ایک مرتبہ مرنا درکار ہے اور بجز خود کشی اپنے کسی افاضۂ غیر کے صفت کو ظاہر نہیں کر سکتا اور نہ کسی قسم کا اپنی مخلوقات کو دنیا یا آخرت میں آرام پہنچا سکتا ہے ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کو اپنی رحمت بندوں پر نازل کرنے کیلئے خود کشی کی ضرورت ہے تو اُس سے لازم آتا ہے کہ ہمیشہ اس کو حادثہ موت کا پیش آتا رہے اور پہلے بھی بے شمار موتوں کا مزہ چکھ چکا ہو اور نیز لازم آتا ہے کہ ہندوؤں کے پرمیشور کی طرح معطل الصافت ہو