خط بنا اِندر من مراد آبادی
اندر من مراد آبادی نے دعوت یکسالہ کیلئے چوبیس سَو روپیہ مانگا تھا جو مسلمانوں کے ایک معزز ڈیپوٹیشن کے ہاتھ بھیجا گیا اور یہ خط ساتھ لکھا گیا مگر اندرمن کہیں بھاگ گیا آخر یہ خط شائع کیا گیا۔
نقل اشتہار
منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے میرے اس مطبوع خط (جس کی ایک ایک کاپی غیر مذاہب کے رؤساء و مقتداؤں کے نام خاکسار نے روانہ کی تھی) جس کے جواب میں پہلے نابھہ سے پھر لاہور سے یہ لکھا تھاکہ تم ہمارے پاس آؤ اور ہم سے مباحثہ کر لو اور نہ موعود اشتہار پیشگی بنک میں داخل کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے جواب میں خاکسار نے رقمیہ ذیل معہ دو ہزار چار سَو روپیہ نقد ایک جمعیت اہل اسلام کے ذریعہ سے ان کی خدمت میں روانہ لاہور کیا۔ جب وہ جماعت منشی صاحب کے مکان موعود میں پہنچی تو منشی صاحب کو وہاں نہ پایا۔ وہاں سے اُن کو معلوم ہوا کہ جس دن منشی صاحب نے خاکسار کے نام خط روانہ کیا تھا۔ اُسی دن سے وہ فرید کوٹ تشریف لے گئے ہوئے ہیں باوجودیکہ اُس خط میں منشی صاحب نے ایک ہفتہ تک منتظر جواب رہنے کا وعدہ تحریر کیا تھا۔ یہ امر نہایت تعجب اور تردّد کا موجب ہوا لہٰذا یہ قرار پای کہ اس رقیمہ کو بذریعہ اشتہار مشتہر کیا جاوے اور اُس کی ایک کامنشی صاحبکے نام حسب نشان مکان موجود بذریعہ رجسٹری روانہ کی جاوے۔ وہ یہ ہے۔
مشفقی اِندر من صاحب آپ نے میرے خط کا جواب نہیں دیا ایک نئی بات لکھی ہے۔ جس کی اجابت مجھ کو اپنے عہد کے رُو سے واجب نہیں ہے۔ میری طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آوے اور صدق دل سے ایک سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرادے گا جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو۔ اب اُس کے جواب میں اوّل تو مجھے اپنا (نابھہ میں پھر لاہور میں) بُلاتے ہیں اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں تو مباحثہ کے لئے نہ آسمانی نشان دیکھنے کیلئے۔ اس پر طفہ یہ کہ روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا میں نے