اپنے الہام کی کل بنیاد ’’ضرورت‘‘ پر قائم کی ہے درحقیقت وہ ضرورت جب کہ خود بے بنیاد ہے یعنی نیچر کے نزدیک وہ ضرورت قابل تسلیم نہیں ہے تو پھر اگر یہ بھی مانا جاوے کہ جو عمارت آپ نے کسی اپنی بنیاد پر کھڑی کی ہے وہ اچھے مصالحہ کے ساتھ بھی تعمیر کی ہے تا ہم وہ بے بنیاد ہونے کے باعث بجزوہم کے اور کہیں نہیں ٹھہر سکتی اور جیسے اس کی بنیاد فرضی ہے ویسے ہی وہ بھی آخر کار فرضی رہتی ہے۔ الہام کے اس غلط عقیدہ کے باعث دنیا میں لوگوں کو جس قدر نقصان پہنچا ہے اور جس قدر خرابیاں برپا ہوئی ہیں اور انسانی ترقی کو جس قدر روک پہنچی ہے اس کے ذکر کرنے کو اگرچہ میرا دل چاہتا ہے مگر چونکہ امر متناقصہ سے اُس کا اس وقت کچھ علاقہ نہیں ہے اس لئے اس کابیان یہاں پر ملتوی رکھتا ہوں۔ لاہور۔ ۳؍ جون ۱۸۷۹ء آپ کا نیاز مند شیونرائن۔ اگنی ہوتری مکرمی جناب پنڈت صاحب آپ کا عنایت نامہ عین انتظار کے وقت پہنچا۔ کمال افسوس سے لکھتا ہوں جو آپ کوتکلیف بھی ہوئی اور مجھ کوجواب بھی صحیح صحیح نہ ملا۔ میرے سوال کا تو یہ ماحصل تھا کہ جب کہ ہماری نجات (کہ جس کے وسائل کا تلاش کرنا آپ کے نزدیک بھی ضروری ہے) عقائد حقہ اور اخلاق صحیحہ اورعمال حسنہ کے دریافت کرنے پر موقوف ہے کہ جن میں وہ امور باطلہ کی ہرگز آمیزش نہ ہو تو اس صورت میں ہم بجز اس کے کہ ہمارے علوم دینیہ اور معارف شرعیہ ایسے طریق محفوظ سے لئے گئے ہوں جو دخل مفاسد اور منکرات سے بکلی معصوم ہو اور کسی طریق سے نجات نہیں پا سکتے۔ اس کے جواب میں اگر آپ وضع استقامت پر چلتے اور داب مناظرہ کو مرعی رکھتے تو از روئے حصر عقلی کے جواب آپ کا (اور حالت انکار) صرف تین باتوں میں سے کسی ایک بات میں محصور ہوتا ہے۔ اوّل یہ کہ آپ سرے سے نجات کا ہی انکار کرتے اور اس کے وسائل کو مفقود الوجود اور ممتنع الحصول ٹھہراتے اور اس کی ضرورت کو چار آنکھوں کی ضرورت کی طرح صرف ایک طبع خام سمجھتے۔ دوم یہ کہ نجات کے قائم ہوتے لیکن اُس کے حصول کے لئے عقائد اور اعمال کا ہر ایک کذب اور فساد سے پاک ہونا ضروری جانتے