میں آنے والا ہے اور جس میں اس کا جہاز غرق ہونے کو ہے اسے پہلے سے جان سکے۔ پس جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے اپنے تئیں طوفان کے مہلک اور خوفناک اثر سے محفوظ کر سکتا ہے اور وہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہو و خطا سے مبرا اور ہر امر کی حقیقت پر واقف ہے) بذریعہ اپنے نج کے پیغام کے فوراً اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر اپنی جان کو ہلاکت کے طوفان سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ پس مقتضائے حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اُس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً وہ ہم کو طوفان کے آنے کی اس قدر عرصہ سے پہلے خبر دیتا رہے کہ جس سے ہمیں اپنے اور اپنے جہاز کے بچانے کا موقع مل سکے۔
اب ظاہر ہے کہ جو لوگ حقیقت کے سمجھنے کا کافی ملکہ رکھتے ہیں اور منطق کے اصول کا بخوبی علم رکھتے ہیں وہ ہماری ان دونوں دلیلوں کو قطعی لنگڑی اور بے بنیاد خیال کریں گے کیوں؟ اس لئے کہ اوّل دونوں دلیلوں میں ’’ضرورت‘‘ کا جو کچھ قیاس قائم کیا گیا ہے جسے ہم نے اپنے نتیجہ کی علت قرار دیا ہے وہ محض ہمارا ایک وہمی اور فرضی قیاس ہے قوانین نیچر سے اُس کی تائید نہیں ہوتی بلکہ ہم اُلٹا قوانین نیچر کو پس انداز کر کے خدا کی خود دانائی پر حاشیہ چڑھاتے ہیں۔ دوم چونکہ ہماری علت فرضی ہوتی ہے پس اس سے جو نتیجہ ہم قائم کرتے ہیں وہ بھی فرض ہوتا ہے اور واقعات نیچر خود اُس کی تردید کرتے ہیں۔ چنانچہ جیسی پہلی مثال کے متعلق ہمارا نتیجہ واقعات کے خلاف ہے اور درحقیقت انسان کے سر کے پیچھے دو آنکھیں اور زائد قائم نہیں کی گئیں میں دوسری مثال میں بھی ویسے ہی باوجود اس کے کہ سینکڑوں جہاز آج تک سمندر میں غرق ہو چکے ہیں اور ہزاروں اور لاکھوں جانیں اُن کے ساتھ ضائع ہو چکی ہیں مگر آج تک خدا نے کسی جہاز والے کے پاس کوئی نج کا پیغام اس قسم کا نہیں بھیجا جس کا دوسری مثال میں ذکر ہوا ہے پس دونوں صورتوں میں ہماری ’’ضرورت‘‘ کا قیاس خدا کی دانائی یا قوانین قدرت کے موافق نہ تھا اس لئے اس کا نتیجہ بھی خدا کی حکمت کے خلاف ہونے کے باعث نیچر کے واقعات سے تصدیق نہ پا سکا اور محض فرضی ثابت ہوا۔ اب صاف ظاہر ہے کہ آپ نے اپنے الہام کی ضرورت پر جو دلیل پیش کی ہے وہ بجسنہ ہماری دونوں دلیوں