یہ نقص کے نتیجے ہیں۔ کمال ایسے ثمرات پید انہیں کرتا۔ ایک شخص اگر موٹی سی کھدر کی چادر میں کوئی توپابھرے تو اس سے وہ درزی نہیں بن جاوے گا۔ اور یہ لازم نہ آئے گا کہ اعلیٰ درجہ کے ریشمی کپڑے بھی وہ سی لے گا۔اگر اس کو ایسے کپڑے دیئے جاویں تو نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ انہیں برباد کردے گا۔ پس ایسی نیکی جس میں گند ملا ہوا ہو کسی کام کی نہیں خد اتعالیٰ کے حضور اس کی کچھ قد نہیں۔لیکن یہ لوگ اس پر ناز کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ نجات چاہتے ہیں۔ اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے اگر اخلاص ہو تو اﷲ تعالیٰ تو ایک ذرہ بھی کسی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔ اس نے تو خود فرمایا ہے۔ من یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ (الزلزال : ۸) اس لیے اگر ذرہ بھر نیکی ہو تو اﷲ تعالیٰ سے اس کا اجر پائے گا۔ پھرکیا وجہ ہے کہ اس قدر نیکی کرکے پھل نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس میں اخلاص نہیں آیاہے۔اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے جیسا کہ فرمایا مخلصین لہ الدین (البینۃ : ۶) یہ اخلاص ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ابدال ہیں؎ٰ۔ یہ لوگ ابدال ہوجاتے ہیں اور وہ اس دنیا کے نہیں رہتے۔اُن کے ہر کام میں ایک خلوص اور اہلیت ہوتی ہے لیکن دنیا داروں کا تو یہ حال ہے کہ وہ خیرات بھی کرتے ہیں تو اس کے لیے تعریف اور تحسین چاہتے ہیں۔اگر کسی نیک کام میں کوئی چندہ دیتا ہے تو غرض یہ ہے کہ اخبارات میں اس کی تعریف ہو۔ لوگ تعریف کریں۔اس نیکی کو خد اتعالیٰ سے کیا تعلق؟ بہت لوگ شادیاں کرتے ہیں۔ اس وقت سارے گائوں میں روٹی دیتے ہیں مگ رخد اکے لیے نہیں صرف نمائش اور تعریف کے لیے۔ اگر ریانہ ہوتی اور محض شفقت علیٰ خلق اﷲ کے لحاظ سے یہ فعل ہوتا اور خالص خدا کے لیے تو ولی ہو جاتے ،لیکن چونکہ ان کاموں کو خد اتعالیٰ سے کوئی تعلق اور غرض نہیں ہوتی اس لئے کوئی اور نیک بابرکت اثر ان میں پیدا نہیں ہوتا۔ یہ خوب یاد رکھو کہ جو شخص خد اتعالیٰ کے لیے ہو جاوے خد اتعالیٰ اس کا ہو جات اہے اور خدا تعالیٰ کسی کے دھوکے میں نہیں آتا۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ ریاکاری اور فریب سے خدا تعالیٰ کو ٹھگ لوں گا تو یہ حماقت اور نادانی ہے۔ وہ خود ہی دھوکہ کھارہا ہے۔دنیا کی زیب،دنیا کی محبت ساری خطاکاریوں کی جڑ ہے۔ اس میں اندھا ہو کر انسان انسانیت سے نکل جاتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ میں کیا کر رہا