پورے قصے پوچھ لو۔اور اس وقت زندؔ ہ ہو کرہم چشم دید گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص درحقیقت سچا ہے اور ہم اس کے نہ ماننے کی وجہ سے دوزخ میں جلتے ہوئے آئے ہیں سو ہماری گواہی چشم دید گواہی ہے اس کو قبول کرو تا تم دوزخ سے بچ جاؤ۔ اب کیا کوئی کانشنس کوئی ضمیر کوئی نورِ قلب قبول کرتا ہے کہ ایسا لیکچر کسی مُردہ نے زندہ ہوکر دیا اور پھر لوگوں نے قبول نہ کیا۔ پس جوشخص اب بھی نہیں سمجھتا کہ نشان کس حد تک ظاہر ہوتے ہیں وہ خود مردہ ہے اگر نشانوں میں ایسے لیکچر مُردوں کی طرف سے ضروری ہیں تو پھر ایمان کا کچھ فائدہ نہیں۔ کیونکہ ایمان اُس حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ ایک بات من وجہٍ ظاہر ہو اور من وجہٍ پوشیدہ بھی ہو یعنی ایک بار یک نظر سے اُس کا ثبوت ملتا ہو اور اگر باریک نظر سے نہ دیکھا جائے تو سرسری طور پر حقیقت پوشیدہ رہ سکتی ہو۔ لیکن جب سارا پردہ ہی کھل گیا تو کون ہے کہ ایسی کھلی بات کو قبول نہیں کرے گا۔ سو معجزات سے وہ امور خارق عادت مراد ہیں جو باریک اور منصفانہ نظر سے ثابت ہوں اور بجز مؤیّدانِ الٰہی دوسرے لوگ ایسے امور پر قادر نہ ہوسکیں اِسی وجہ سے وہ امورخارق عادت کہلاتے ہیں۔ مگر بدبخت ازلی اُن معجزانہ امور سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے جیسا کہ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام سے کئی معجزات دیکھے مگر اُن سے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا اور انکار کرنے کیلئے ایک دوسرا پہلو لے لیا کہ ایک شخص کی بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں جیسا کہ باراں تختوں کی پیشگوئی جو حواریوں کیلئے کی گئی تھی اُن میں سے ایک مرتد ہوگیا۔ یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ بے بنیاد ثابت ہوا۔ اور پھر تاویل کی گئی کہ میری مراد اس سے آسمانی بادشاہت ہے۔ اور یہ بھی پیشگوئی حضرت مسیح نے کی تھی کہ ابھی اِس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے کہ میں پھر دنیا میں آؤں گا۔ مگر یہ پیشگوئی بھی صریح طور پر جھوٹی ثابت ہوئی۔اور پھر پہلے نبیوں نے مسیح کی نسبت یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ نہیں آئے گا جب تک کہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہ آجائے مگر الیاس نہ آیا۔ اور یسوع ابن مریم نے یونہی مسیح موعود ہونے کادعویٰ کردیا حالانکہ الیاس دوبارہ دنیا میں