ہے۔پس مسجدوں میں بھی نمازیں پڑھو اور گھروں میں بھی۔ایسا ہی ایک جگہ دین کے کام کے لیے چندہ ہو رہا ہو۔ایک شخص دیکھتا ہے کہ لوگ بیدار نہیں ہوتے اور خاموش ہیں۔وہ محض اس خیال سے کہ لوگوں کو تحریک ہو سب سے پہلے چندہ دیتا ہے۔بظاہریہ ریا ہوگی لیکن ثواب کا باعث ہوگی۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے 33 ۱ ۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ ایک جنگ میں ایک شخص اکڑ کر اور چھاتی نکال کر چلتا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا کہ یہ فعل خدا تعالیٰ کو ناپسند ہے لیکن اس وقت اﷲ تعالیٰ اس کو پسند کرتاہے۔پس ع
گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی
غرضُ خلق محل پر مومن اور غیر محل پر کافر بنادیتا ہے۔ میں پہلے کہہ چکاہوں کہ کوئی خُلق ُ برا نہیں بلکہ بداستعمالی سے بُرے ہوجاتے ہیں۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے غصّہ کے متعلق آیا ہے کہ آپ سے کسی نے پوچھا کہ قبل از اسلام آپ بڑے غصّہ ور تھے۔حضرت عمرنے جواب دیا کہ غصّہ تو وہی ہے البتہ پہلے بے ٹھکانے چلتا تھامگر اب ٹھکانے سے چلتا ہے۔اسلام ہر ایک قوت کو اپنے محل پر استعمال کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔پس یہ کبھی کوشش مت کرو کہ تمہارے قویٰ جاتے رہیں بلکہ ان قویٰ کا صحیح استعمال سیکھو۔یہ سب جھوٹے اور خیالی عقائد ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری تعلیم یہ ہے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دو۔ممکن ہے یہ تعلیم اس وقت قانون مختصّ المکان یا مختصّ الزّمان کی طرح ہو۔ہمیشہ کے لئے یہ قانون نہ کبھی ہو سکتا ہے اور نہ یہ چل سکتا ہے۔اس لیے کہ انسان ایک ایسے درخت کی طرح ہے جس کی شاخیں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں۔اگر اس کی ایک ہی شاخ کی پروا کی جاوے تو باقی