اور جو حدیث قرآن اور سنّت کے مخالف نہ ہوا اُس کو بسر و چشم قبول کیا جاوے یہی صراطِ مستقیم ہے۔ مبارک وہ جو اس کے پابند ہوتے ہیں۔ نہایت بد قسمت* اور نادان وہ شخص ہے جو بغیر لحاظ اس قاعدہ کے حدیثوں کا انکار کرتا ہے۔ ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں۔ اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور ؔ نہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔ یاد رکھیں کہ ہماری جماعت بہ نسبت عبداللہ کے اہلحدیث سے اقرب ہے اور عبداللہ چکڑالوی کے بیہودہ خیالات سے ہمیں کچھ بھی مناسبت نہیں۔ ہر ایک جو ہماری جماعت میں ہے اُسے یہی چاہئے کہ وہ عبداللہ چکڑالوی * نوٹ ۔آج رات مجھے رؤیامیں دکھایا گیا کہ ایک درخت باردار اور نہایت لطیف اور خوبصورت پھلوں سے لدا ہوا ہے اور کچھ جماعت تکلف اور زور سے ایک بوٹی کو اُس پر چڑھانا چاہتی ہے جس کی جڑ نہیں بلکہ چڑہا رکھی ہے وہ بوٹی افتیمون کی مانند ہے اور جیسے جیسے وہ بوٹی اُس درخت پر چڑھتی ہے اُس کے پھلوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس لطیف درخت میں ایک کھجواہٹ اور بدشکلی پیدا ہورہی ہے اور جن پھلوں کی اس درخت سے توقع کی جاتی ہے اُن کے ضائع ہونے کا سخت اندیشہ ہے بلکہ کچھ ضائع ہو چکے ہیں۔ تب میرا دِل اس بات کو دیکھ کر گھبرایا اور پگھل گیا اور مَیں نے ایک شخص کو جو ایک نیک اور پاک انسان کی صورت پر کھڑا تھا پوچھا کہ یہ درخت کیا ہے اور یہ بوٹی کیسی ہے جس نے ایسے لطیف درخت کو شکنجہ میں دبا رکھا ہے تب اُس نے جواب میں مجھے یہ کہا کہ یہ درخت قرآن خدا کا کلام ہے اور یہ بوٹی وہ احادیث اور اقوال وغیرہ ہیں جو قرآن کے مخالف ہیں یا مخالف ٹھہرائی جاتی ہیں اور ان کی کثرت نے اِس درخت کو دبا لیا ہے اور اس کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ تب میری آنکھ کھل گئی چنانچہ مَیں آنکھ کھلتے ہی اِس وقت جو رات ہے اِس مضمون کو لکھ رہا ہوں اور اب ختم کرتا ہوں اور یہ شنبہ کی رات ہے اور ۱۲ بجے کے بعد ۲۰ منٹ کم دو بجے کا وقت ہے۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔ م۔غ۔ا