کو جائے گا اور اس سے بڑھ کر کوئی بھی ذریعہ بہشت کا نہیں ۔اور اگرچہ خدا کی حق تلفی کا گناہ سب گناہوں سے بڑھ کر ہے لیکن اس جگہ ہمارا یہ مقصود نہیں ہے کہ اس خطرناک حق تلفی کا ذکر کریں جس کی عیسائی قوم مرتکب ہے بلکہ ہم اس جگہ مسلمانوں کو اُس حق تلفی پر متنبہ کرنا چاہتے ہیں جو بنی نوع کی نسبت اُن سے سرزد ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ مسئلہ جہاد کو جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے اور جس طرح وہ عوام کے آگے اس مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ہرگز وہ صحیح نہیں ہے اور اس کا نتیجہ بجزاس کے کچھ نہیں کہ وہ لوگ اپنے پُر جوش وعظوں سے عوام وحشی صفات کو ایک درندہ صفت بناویں۔ اورؔ انسانیت کی تمام پاک خوبیوں سے بے نصیب کر دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں یقیناًجانتاہو ں کہ جس قدر ایسے ناحق کے خون اُن نادان اور نفسانی انسانوں سے ہوتے ہیں کہ جو اس راز سے بے خبر ہیں کہ کیوں اور کس و جہ سے اسلام کو اپنے ابتدائی زمانہ میں لڑائیوں کی ضرورت پڑی تھی اُن سب کا گناہ ان مولویوں کی گردن پر ہے کہ جو پوشیدہ طور پر ایسے مسئلے سکھاتے رہتے ہیں جن کا نتیجہ دردناک خونریزیاں ہیں۔ یہ لوگ جب حکام وقت کو ملتے ہیں تو اس قدر سلام کے لئے جھکتے ہیں کہ گویا سجدہ کرنے کے لئے طیار ہیں اور جب اپنے ہم جنسوں کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو بار بار اصرار ان کا اِسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ ملک دارالحرب ہے اور اپنے دلوں میں جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں اور تھوڑے ہیں جو اس خیال کے انسان نہیں ہیں۔ یہ لوگ اپنے اس عقیدہ جہاد پر جو سراسر غلط اور قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے اس قدر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص اس عقیدہ کو نہ مانتا ہو اور اس کے بر خلاف ہو اُس کا نام دجال رکھتے ہیں اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ میں بھی مدت سے اِسی فتویٰ کے نیچے ہوں اور مجھے جواس ملک کے بعض مولویوں نے دجّال اور کافر قرار دیا اور گورنمنٹ برطانیہ کے قانون سے بھی بے خوف ہو کر میری نسبت ایک چھپا ہوا فتویٰ شائع کیا کہ یہ شخص واجب القتل ہے اور اس کا مال لوٹنا بلکہ عورتوں کو نکال کر لے جانا بڑے ثواب کا