بلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا۔ لہٰذا وہ اس فکر میں لگ گئے کہ کسی طرح اسلام کو صفحۂ دنیا سے مٹا دیں اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے اُن کے مخالفوں نے بباعث اس تکبّر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں ،مال میں ،کثرت جماعت میں ،عزت میں، مرتبت میں دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں اُس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتاؤ کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودہ زمین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اُٹھا نہیں رکھا تھا اور اُن کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے۔ سو اسی خوف سے جو اُن کے دلوں میں ایک رُعبناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں اُن سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی اُن کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے فخر اُن شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیمؔ بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کو چوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شرّ کا ہر گز مقابلہ نہ کرو چنانچہ اُن برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا اُن کے خونوں سے کوچے سُرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی۔ خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں بار ہا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اُس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور اُنہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا۔ تب اُس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر