برپا ہوتا تھا اور غیر ممکن سمجھا گیا تھا کہ کوئی شخص حلاوتِ اسلام چکھ کر پھر مرتد ہو جائے۔ اور اب اسی ملک برٹش انڈیا میں ہزارہا مرتد پاؤ گے بلکہ ایسے بھی جنہوں نے اسلام کی توہین اور رسول کریم کی سبّ و شتم میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ پھر آج کل علاوہ اس کے یہ آفت برپا ہو گئی ہے کہ جب عین صدی کے سرپر خدا تعالیٰ نے تجدید* اور
اس حدیث کو تمام اکابر اہل سنت مانتے چلے آئے ہیں کہ ہر یک صدی کے سر پر مجدّد پیدا ہوگا مگر مجدّدین کے نام جو پیش کرتے ہیں یہ تصریح اور تعیین وحی کے رو سے نہیں صرف اجتہادی خیال ہے۔ اور وہ نشان جو خدا نے میرے ہاتھ پر ظاہر فرمائے وہ سو۱۰۰ سے بھی زیادہ ہیں جو کتاب تریاق القلوب میں درج کئے گئے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے مخالف اُن پہلے منکروں کی طرح بن گئے ہیں جو بار بار حدیبیّہ کے متعلق کی پیشگوئی کو پیش کرتے تھے یا اُن یہود کی طرح جو حضرت مسیح کی تکذیب کے لئے اب تک یہ ان کی پیشگوئیاں پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ مَیں داؤد کا تخت قائم کروں گااور نیز یہ پیشگوئی کی تھی کہ ابھی بعض لوگ زندہ ہوں گے جو مَیں واپس آؤں گا۔ ایسا ہی یہ لوگ بھی اُن تمام پیشگوئیوں پر نظر نہیں ڈالتے جو ایک سو۱۰۰ سے بھی زیادہ پوری ہو چکی ہیں اور ملک میں شائع ہو چکیں۔ اور جو ایک دو پیشگوئی بباعث ان کی غباوت اور کمی توجہ کے ان کو سمجھ نہیں آئیں بار بار انہیں کاراگ گاتے رہتے ہیں۔ نہیں سوچتے کہ اگر اس طور پر تکذیب جائز ہے تو اس صورت میں یہ اعتراض تمام نبیوں پر ہوگا اور ان کی پیشگوئیوں پر ایمان لانے کی راہ بند ہو جائے گی ۔ مثلاً جو شخص آتھم کی پیشگوئی یا احمد بیگ کے داماد کی پیشگوئی پر اعتراض کرتا ہے کیا وہ حدیبیّہ کے متعلق کی پیشگوئی کو بھول گیا ہے جس پر یقین کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر کثیر کے ساتھ مکہ معظمہ کا سفر اختیار فرمایا تھا۔ اور کیا یونس نبی کی پیشگوئی چالیس۴۰ دن والی یاد نہیں رہی۔ افسوس کہ میری تکذیب کی وجہ سے مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی پیشگوئی کی بھی خوب عزت کی کہ قادیاں پر نور نازل ہوا اور وہ نور مرزا غلام احمدؐ ہے جس سے میری اولاد محروم رہ گئی (اولاد میں مرید بھی داخل ہیں) اور پھر جس حالت میں موت کی پیشگوئیاں صرف ایک نہیں چار پیشگوئیاں ہیں (۱) آتھم کی نسبت (۲) لیکھرام کی نسبت (۳) احمد بیگ کی نسبت (۴) احمد بیگ