روشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے اور ہم نے بے و جہ بے تعلق اس پرپستول چلا کر ایک دم میں اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنادیا۔ یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کس آیت میں مرقوم ہے؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے! نادانوں نے جہاد کا نام سُن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے یا محض دیوانگی کے طور پر مرتکب خونریزی کے ہوئے ہیں۔ ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو اسلام نے خدائی حکم سے تلوار اٹھائی وہ اس وقت اٹھائی گئی کہ جب بہت سے مسلمان کافروں کی تلواروں سے قبروں میں پہنچ گئے آخر خدا کی غیرت نے چاہا کہ جو لوگ تلواروں سے ہلاک کرتے ہیں وہ تلواروں سے ہی مارے جائیں۔ خدا بڑا کریم اور رحیم اور حلیم ہے اور بڑا برداشت کرنے والا ہے۔ لیکن آخر کار را ستبازوں کے لئے غیرت مند بھی ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ جبکہ اس ؔ زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لئے قتل نہیں کرتا تووہ کس حکم سے ناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ کیوں اُن کے مولوی ان بے جاحرکتوں سے جن سے اسلام بدنام ہوتا ہے اُن کو منع نہیں کرتے۔ اس گورنمنٹ انگریزی کے ماتحت کس قدر مسلمانوں کو آرام ہے کیا کوئی اس کو گِن سکتا ہے۔ ابھی بہتیرے ایسے لوگ زندہ ہوں گے جنہوں نے کسی قدر سکھوں کا زمانہ دیکھا ہوگا۔ اب وہی بتائیں کہ سکھوں کے عہد میں مسلمانوں اور اسلام کا کیا حال تھا۔ ایک ضروری شعار اسلام کا جو بانگ نماز ہے وہی ایک جرم کی صورت میں سمجھا گیا تھا۔ کیا مجال تھی کہ کوئی اونچی آواز سے بانگ کہتا اور پھر سکھوں کے برچھوں اور نیزوں سے بچ رہتا۔ تو اب کیا خدا نے یہ بُرا کام کیا جو سکھوں کی بے جا دست اندازیوں سے مسلمانوں کو چھڑایا اور گورنمنٹ انگریزی کی امن بخش حکومت میں داخل کیا اور اس گورنمنٹ کے آتے ہی گویا نئے سرے پنجاب کے مسلمان مشرف باسلام ہوئے۔ چونکہ احسان کا عوض احسان ہے اس لئے نہیں چاہئے کہ ہم اس خدا کی نعمت کو جو ہزاروں دعاؤں کے بعد