بجائے دُعا ہے جو میت کے حق میں کرنی چاہئے۔ میت کے حق میں صدقہ خیرات اور دُعا کاکرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنت سے ثابت ہے۔ لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دے جائے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے ایمان پر مہر لگاتاہے ۔ ۱۵؍جنوری ۱۹۰۶ئ؁ نبی کی وفات اور اللہ تعالیٰ کی قدرت نمائی :۔ ایک خادم جو باہر سے آیا تھا حضور کی خدمت میں اس الہام کا ذکر کرے کہ آپ کی وفات کے دن قریب ہیں رو پڑا۔ فرمایا: یہ وقت تمام انبیاء کے متبعین کو دیکھنا پڑتاہے۔ اور اس میں ایک نشان خدا تعالیٰ دکھاتا ہے نبی کی وفات کے بعد اس سلسلہ کو قائم رکھ کر اللہ تعالیٰ یہ دکھانا چاہتاہے کہ یہ سلسلہ دراصل خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے ۔ بعض نادان لوگ نبی کے زمانہ میں کہا کرتے ہیں کہ یہ ایک ہوشیار اور چالاک آدمی ہے اور دُکاندار ہے ۔ کسی اتفاق سے اس کی دُکان چل پڑی ہے۔ لیکن اس کے مرنے کے بعد یہ سب کاروبار تباہ ہو جاوے گا۔ تب اللہ تعالیٰ نبی کی وفات کے وقت ایک زبردست ہاتھ دکھاتاہے اور اس کے سلسلہ کو نئے سرے سے پھر قائم کرتاہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت بھی ایساہی ہوا تھا۔ بہت سے بادیہ نشین مرتد ہوگئے تھے ۔ لوگوں نے سمجھا کہ یہ بے وقت موت ہے۔ صرف دو مسجدوں میں نماز پڑھی جاتی تھی۔ باقی میں بند ہوگئی ۔ تب خدا تعالیٰ نے ابو بکر کو اُٹھایا ۔ اور تمام کاروبار اسی طرح جاری رہا۔ اگر انسان کاکاروبار ہوتا تو اس وقت ادھورا رہ جاتا۔ ایسا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد جو نمونہ ایک ناکامی اور تباہی اور پریشانی کا اُن کی اُمت نے دیکھا تھا اس کی تو کوئی نظیر ہی موجود نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت نمائی کا ایک نمونہ دکھانا چاہتاہے کہ نبی کے زمانہ میں اُن تمام کاموں کی تکمیل نہیں کرتا۔ سُنت اللہ ہمیشہ اسی طرح سے جاری ہے کہ لوگوں کو خیال کسی اور طرف ہوتاہے اور خدا تعالیٰ کو ئی اور بات کر دکھلاتاہے ۔ جس سے بہتوں کے واسطے صورت ابتلاء پیدا ہو جاتی ہے ۔ آنحضرت